| مُوئے مِژگاں سے تِرے سینکڑوں مرجاتے ہیں |
| یہی نشتر تو رگِ جاں میں اُتر جاتے ہیں |
| حرم و دیر ہیں عُشاق کے مُشتاق مگر |
| تیرے کوُچے سے اِدھر یہ نہ اُدھر جاتے ہیں |
| کوچۂ یار میں اوّل تو گُزر مُشکل ہے |
| جو گُزرتے ہیں زمانے سے گُزر جاتے ہیں |
| شمع ساں جلتے ہیں جو بزمِ محبّت میں تِرے |
| نام روشن وہی آفاق میں کر جاتے ہیں |
| اثرِ آبِ بَقا خاک رہِ عِشق میں ہے |
| وہی زندہ ہیں یہاں آکے جو مرجاتے ہیں |
| تم جو چڑھتے ہو نظر پر تو تمھارے ہوتے |
| سب حسینانِ جہاں دِل سے اُتر جاتے ہیں |
| زاہدو تم کو جناں ہم کو درِ یار پَسند |
| خیر جاؤ تم اُدھر کو ہم اِدھر جاتے ہیں |
| زندے کیا اہلِ عَدم کو بھی پھنسا لاتے ہیں |
| زُلف کے بال اگر تابہ کمر جاتے ہیں |
| کیا اثر نامِ علی میں ہے کہ لیتے ہی امِیر |
| کام بگڑے ہُوئے جتنے ہیں سنور جاتے ہیں |
بحر
|
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
||
|
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
||
|
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
||
|
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات