تاباں قمر کہ حسنِ سراپا کہوں تجھے
مرکز عطا کا،بحر سخا کا کہوں تجھے
یزداں کا میرے مصطفی پیارا کہوں تجھے
"سرور کہوں کہ مالک و مولا کہوں تجھے
باغ خلیل کا گل زیبا کہوں تجھے"
انس و ملک کا میں تجھے مولی و شہ کہوں
رب سے ملانے والی تجھے نوری رہ کہوں
خوشیوں کا مستقل تجھے راہ و پتہ کہوں
"حرماں نصیب ہوں تجھے امید گہ کہوں
جانِ مراد و کانِ تَمَنّا کہوں تجھے"
تم پر نثار اپنا دل و جاں کروں شہا
اپنے دکھوں کا کوئی تو درماں کروں شہا
جنت میں جانے کا کوئی امکاں کروں شہا
"مجرم ہُوں اپنے عفو کا ساماں کروں شہا
یعنی شفیع روزِ جزا کا کہوں تجھے"
تم ہو جہاں کی ابتدا تم ہو بس انتہا
مخلوق ساری میں ہے ترا مرتبہ جدا
قرآن سارا ہے نبی جی مدح گو ترا
"لیکن رضاؔ نے ختم سخن اس پہ کر دیا
خالِق کا بندہ خلق کا آقا کہوں تجھے"

2
41
واہ یار کمال کر دیا

0
شکریہ

0