سانسیں خرید لوں تری باتیں خرید لوں
جینے کے واسطے تری یادیں خرید لوں
کرتا ہے خود پہ ناز کہ بکتا نہیں ہوں میں
کیا ہے تمہارا دام بتائیں خرید لوں
اس عہدِ بے وفائی میں یاروں کے واسطے
ملتی ہو گر کہیں تو وفائیں خرید لوں
آیا وہ مجھ سے ملنے شبِ ماہتاب میں
گر میرا بس چلے تو میں راتیں خرید لوں
کیسے بھی کاٹ لوں گی خزاؤں میں اپنے دن
تیرے لیے مگر میں بہاریں خرید لوں
تعریفِ حسنِ یار کی اظہار کے لیے
دنیا جہاں کی ساری زبانیں خرید لوں
اپنی تمام خوشیاں لٹا کر اے شائلؔہ
تیرے نصیب کی میں بلائیں خرید لوں

1
17
بہت اچھے

0