| وہ جاتے جاتے صبر کی تلقین کر گیا |
| مجھ میں مری ہی لاش کی تدفین کر گیا |
| خود تو گیا سکون سے خوشیاں سمیٹ کر |
| ہستی اجاڑ کر مری غمگین کر گیا |
| ٹوٹا ہوا ہوں شاخ سے یہ دیکھ کر مجھے |
| طوفاں کی نذر پھر مرا گلچین کر گیا |
| میری ندائے موت تھی میری زبان پر |
| سن کر مری دعا کو وہ آمین کر گیا |
| مجھ سے اجالے لے گیا تاریک رات میں |
| اپنا جہاں وہ آپ ہی رنگین کر گیا |
| الزام بے وفائی کا ساغر پہ تھوپ کر |
| میری وفا کی بے وفا توہین کر گیا |
معلومات