شامِ فرقت چلی جا ، وہ نہیں آنے والے
یاد اُن کی نہ بڑھا ، وہ نہیں آنے والے
مت دے آواز اُسے اے شبِ آسودہ اب
ہو گئے ہیں وہ خفا ، وہ نہیں آنے والے
شور برپا تو تھا ہی اُنکے نہ آنے کا ، اب
خامشی بھی دے صدا ، وہ نہیں آنے والے
چاند خوشبو سبھی آئے ہیں اُنہیں ملنے کو
پر اِنہیں کیا ہے پتا ، وہ نہیں آنے والے
کون سمجھا سکے ہے زین دلِ ناداں کو
صبر اِس کا ہے بے جا ، وہ نہیں آنے والے

0
1
32
کیا کہنے