شامِ فرقت چلی جا ، وہ نہیں آنے والے |
یاد اُن کی نہ بڑھا ، وہ نہیں آنے والے |
مت دے آواز اُسے اے شبِ آسودہ اب |
ہو گئے ہیں وہ خفا ، وہ نہیں آنے والے |
شور برپا تو تھا ہی اُنکے نہ آنے کا ، اب |
خامشی بھی دے صدا ، وہ نہیں آنے والے |
چاند خوشبو سبھی آئے ہیں اُنہیں ملنے کو |
پر اِنہیں کیا ہے پتا ، وہ نہیں آنے والے |
کون سمجھا سکے ہے زین دلِ ناداں کو |
صبر اِس کا ہے بے جا ، وہ نہیں آنے والے |
معلومات