| حرفِ اظہار تک نہیں پہنچے |
| تختۂِ دار تک نہیں پہنچے |
| ہاں مسیحا بہت تھے بستی میں |
| بس کہ بیمار تک نہیں پہنچے |
| چھان ماری ہیں بستیاں دکھ کی |
| اپنے آزار تک نہیں پہنچے |
| وہ جو کردار تھے کہانی میں |
| میرے کردار تک نہیں پہنچے |
| چاہتوں کے تھے زاوئے نازک |
| ورطِ انکار تک نہیں پہنچے |
| شوخ الفاظ تھے کتابوں میں |
| درسِ گفتار تک نہیں پہنچے |
| بوجھ رستوں کا ڈھو لیا شؔیدا |
| بس درِ یار تک نہیں پہنچے |
معلومات