حرفِ اظہار تک نہیں پہنچے
تختۂِ دار تک نہیں پہنچے
ہاں مسیحا بہت تھے بستی میں
بس کہ بیمار تک نہیں پہنچے
چھان ماری ہیں بستیاں دکھ کی
اپنے آزار تک نہیں پہنچے
وہ جو کردار تھے کہانی میں
میرے کردار تک نہیں پہنچے
چاہتوں کے تھے زاوئے نازک
ورطِ انکار تک نہیں پہنچے
شوخ الفاظ تھے کتابوں میں
درسِ گفتار تک نہیں پہنچے
بوجھ رستوں کا ڈھو لیا شؔیدا
بس درِ یار تک نہیں پہنچے

0
1
16
بہت عمدہ ۔ واہ واہ

0