| ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے |
| مرتے ہیں ، ولے ، اُن کی تمنا نہیں کرتے |
| در پردہ اُنھیں غیر سے ہے ربطِ نہانی |
| ظاہر کا یہ پردہ ہے کہ پردہ نہیں کرتے |
| یہ باعثِ نومیدیِ اربابِ ہوس ہے |
| غالبؔ کو بُرا کہتے ہو ، اچھا نہیں کرتے |
بحر
|
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات