| ہم کہ منت کشِ صیاد نہیں ہونے کے |
| وہ جو چاہے بھی تو آزاد نہیں ہونے کے |
| دیکھ آ کر کبھی ان کو بھی جو تیرے ہاتھوں |
| ایسے اُجڑے ہیں کہ آباد نہیں ہونے کے |
| وصفِ مے اور صفتِ یار کے مضموں کے سوا |
| ناصحا تیرے سخن یاد نہیں ہونے کے |
| یارِ بد عہد کا کتنا بڑا احساں ہے کہ ہم |
| اب کسی کے لئے برباد نہیں ہونے کے |
| اس جفا جُو کو دعا دو کہ اگر وہ نہ رہا |
| پھر کسی سے ستم ایجاد نہیں ہونے کے |
| آج پھر جشن منایا گیا آزادی کا |
| کل گھروں پر کئی افراد نہیں ہونے کے |
| اتنے آرام طلب ہو تو محبت میں فراز |
| مِیر بن جاؤ گے فرہاد نہیں ہونے کے |
بحر
|
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
||
|
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
||
|
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
||
|
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات