| کوئی دن گر زندگانی اور ہے |
| اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے |
| آتشِ دوزخ میں یہ گرمی کہاں |
| سوزِ غم ہائے نہانی اور ہے |
| بارہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیں |
| پر کچھ اب کے سر گرانی اور ہے |
| دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر |
| کچھ تو پیغامِ زبانی اور ہے |
| قاطعِ اعمار ہیں اکثر نجوم |
| وہ بلائے آسمانی اور ہے |
| ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام |
| ایک مرگِ ناگہانی اور ہے |
بحر
|
رمل مسدس محذوف
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات