| آج کی شب تو کسی طور گُزر جائے گی |
| رات گہری ہے مگر چاند چمکتا ہے ابھی |
| میرے ماتھے پہ ترا پیار دمکتا ہے ابھی |
| میری سانسوں میں ترا لمس مہکتا ہے ابھی |
| میرے سینے میں ترا نام دھڑکتا ہے ابھی |
| زیست کرنے کو مرے پاس بہت کُچھ ہے ابھی |
| تیری آواز کا جادو ہے ابھی میرے لیے |
| تیرے ملبوس کی خوشبو ہے ابھی میرے لیے |
| تیری بانہیں ترا پہلو ہے ابھی میرے لیے |
| سب سے بڑھ کر مری جاں! تو ہے ابھی میرے لیے |
| زیست کرنے کو مرے پاس بہت کُچھ ہے ابھی |
| آج کی شب تو کسی طور گُزر جائے گی |
| آج کے بعد مگر رنگ وفا کیا ہوگا |
| عشق حیراں ہے سرِ شہرِ سبا کیا ہوگا |
| میرے قاتل! ترا اندازِ جفا کیا ہوگا |
| آج کی شب تو بہت کچھ ہے، مگر کل کے لیے |
| ایک اندیشۂ بے نام ہے اور کچھ بھی نہیں |
| دیکھنا یہ ہے کہ کل تجھ سے ملاقات کے بعد |
| رنگِ اُمید کِھلے گا کہ بکھر جائے گا |
| وقت پرواز کرے گا کہ ٹھہر جائے گا |
| جیت ہو جائے گی یا کھیل بگڑ جائے گا |
| خواب کا شہر رہے گا کہ اُجڑ جائے گا |
بحر
|
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
||
|
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
||
|
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
||
|
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات