حقیتِ منتظر کا ہم، سدا اقرار کرتے ہیں
دلِ بینا تماشا جو، سرِ بازار کرتے ہیں
ظرافت میں ہو خود داری، ظفر اس سے ملے پیاری
لگاؤ جس کے دل میں ہو، وہ خود اظہار کرتے ہیں
سدائے کن جو ڈنکا ہے، کسی اقبالِ چاہت کا
محبت یوں نبی سے خود سدا مختار کرتے ہیں
بلاوا آ گیا حق سے، رضائے خالقِ کل کا
نبی آئیں دنیٰ میں اب، ذرا دیدار کرتے ہیں
یہ ملنا تھا کریموں کا، نہیں اوروں کو جو حاصل
تھیں باتیں، رب سے وہ اُن کی، جو پیارے یار کرتے ہیں
درود اُن پر سدا بھیجیں، جو عشقِ جاں میں، غلطاں ہیں
کرم پھر اِن پہ، رحمت سے، سخی سردار کرتے ہیں
سدا محمود رب رکھے، نبی کے اِن غلاموں میں
نظر جن پر، اے میرے دل، شہے ابرار کرتے ہیں

22