| لوٹ کر آئے نہیں شہر سے جانے والے |
| جانے کس دیس میں جاتے ہیں نہ آنے والے |
| ہم نے ہر بار وفاؤں کی سزا پائی ہے |
| ہم نے دھوکے یہاں کھائے ہیں نہ کھانے والے |
| ہم نے اِس کارِ محبت میں قدم رکھا تھا |
| ہم وہ عاشق ہیں میاں دشت بسانے والے |
| اُس کو دیکھا تو مری آنکھ سے چھلکے آنسو |
| کُچھ تو ہوتے ہی نہیں زخم چُھپانے والے |
| اِن درختوں پہ بھی آسیب کا سایہ ہے کوئی |
| سانپ بیٹھے ہیں پرندوں کو ستانے والے |
| اب کہ دشمن کے لئے مَیں نے دعا مانگی ہے |
| دوست مِلتے ہیں مجھے خون بہانے والے |
| میرے خوابوں کی یوں تعمیر کہاں ممکن ہے |
| دل میں رہتے ہیں مری نیند چُرانے والے |
| اُن کی یادوں سے نِکلتا ہی نہیں دِل مانی |
| مر کے بھی ساتھ نبھاتے ہیں نبھانے والے |
معلومات