| انانیت میں ہمیشہ وہ چور رہتے ہیں |
| دل و دماغ میں جنکے فتور رہتے ہیں |
| انا پرست، دغا باز، بے وفا، بد خو، |
| تمہارے کوچے میں سب بےشعور رہتے ہیں |
| خلافِ ظلم نہیں کھلتی اب زباں کوئی |
| ہمارے شہر میں اہلِ قبور رہتے ہیں |
| کسی کی خیریت اب کون پوچھتا صاحب |
| یہاں ہر ایک میں کِبر و غرور رہتے ہیں |
| ہماری آہ بھی مجرم بناتی ہے ہم کو |
| وہ قتل کر کے بھی اب بے قصور رہتے ہیں |
| اِنہیں خبر نہیں مجنوں کی اس لئے شاید |
| ادھر کے لوگ محبت سے دور رہتے ہیں |
| گریز کرتے تصدق ہیں ان مجالس سے |
| جہاں پہ عام بھی، حضرت، حضور رہتے ہیں |
معلومات