مجھ پہ موسم کا اثر کچھ بھی نہیں
ہو نہ تیری تو خبر کچھ بھی نہیں
مجھ سے ملنے کا کوئی عہد تو کر
ورنہ یہ سوزِ جگر کچھ بھی نہیں
تیری یادوں پہ ہی جینا ہے مجھے
ورنہ میرا تو بسر کچھ بھی نہیں
میرے آنگن کی مہک تیرے سبب
نہیں ہے تُو تو یہ گھر کچھ بھی نہیں
بن ترے وقت گزرنا بھی عجیب
شب جو گزرے بھی سحر کچھ بھی نہیں
جب بھی ملنا ہو محبت سے ملو
ورنہ قربت کا ثمر کچھ بھی نہیں
ہے چھپا ہجر میں قربت کا مزہ
نہ ہو قربت تو سفر کچھ بھی نہیں
تجھ سے بستا ہے جہاں میرا صنم
بن ترے اپنا نگر کچھ بھی نہیں
اے ہمایوں تو نے بھی دیکھ لیا
گر نہ ہو شب تو قمر کچھ بھی نہیں
ہمایوں

0
5