ہم نہ بھی ہوں وہ آنکھیں تو ہونگی
ہم کو جو دیکھتی ہیں چپکے سے
ساز ہونگے سماعتیں ہونگی
اُن کے سننے کو ہم نہیں ہونگے
حُسن ہو گا فقط نظاروں تک
حُسن والے تو نام کے ہونگے
لوگ پوچھیں ہمارے بارے میں
ایسی قسمت کہاں ہماری ہے
ہاں مگر وہ جو حُسن والے ہیں
وہ تو ہر اک زبان پر ہونگے
ہم کو مطلوب تیری آنکھیں ہیں
اِس سے بڑھ کے بھی اور کیا مانگیں
تیرے چہرے کے خال و خد سے پرے
کتنی ہی کہکشاں کے پہرے ہیں
چاند سورج یہ سب کے سب تارے
تیری گردش میں ماہ و سال رہیں
تجھ کو پانے کی آرزو لے کر
ہم جو نکلے تو دھوم سے نکلے
خود سری راستے میں پھینک آئے
آبرو کو بھی تار تار کیا
کتنے ہی خواب چکنا چور کیے
خود کو بھی راستے میں چھوڑ آئے
اب جو پہنچے ہیں تیرے کوچے میں
خود نہیں جانتے کہ کون ہیں ہم
ہم کو اب کون یاد رکھے گا!!!
خود نہیں جانتے کہ کون ہیں ہم!!!
سید ہادی حسن

29