| نقش میرے مٹا دیے ہوں گے |
| خط بھی سارے جلا دیے ہوں گے |
| ۔ |
| دل میں جو پیار کے جلائے تھے |
| وہ دیے بھی بجھا دیے ہوں گے |
| ۔ |
| خواب میرے جلا کے راکھ کی طرح |
| سب فضا میں اڑا دیے ہوں گے |
| ۔ |
| ہجر کے ماروں نے تو اشکوں کے |
| کئی دریا بہا دیے ہوں گے |
| ۔ |
| تھا یقیں جس پہ اس نے ہاتھ اپنے |
| کسی اور کو تھما دیے ہوں گے |
| ۔ |
| رب نے ان تشنگانِ ہجر پہ تو |
| سب سمندر سکھا دیے ہوں گے |
| ۔ |
| راز جو رازداں پہ کھولے تھے |
| اس نے آگے بتا دیے ہوں گے |
| ۔ |
| بھول کے عشق وشق عاجز نے |
| قدم آگے بڑھا دیے ہوں گے |
معلومات