نقش میرے مٹا دیے ہوں گے
خط بھی سارے جلا دیے ہوں گے
۔
دل میں جو پیار کے جلائے تھے
وہ دیے بھی بجھا دیے ہوں گے
۔
خواب میرے جلا کے راکھ کی طرح
سب فضا میں اڑا دیے ہوں گے
۔
ہجر کے ماروں نے تو اشکوں کے
کئی دریا بہا دیے ہوں گے
۔
تھا یقیں جس پہ اس نے ہاتھ اپنے
کسی اور کو تھما دیے ہوں گے
۔
رب نے ان تشنگانِ ہجر پہ تو
سب سمندر سکھا دیے ہوں گے
۔
راز جو رازداں پہ کھولے تھے
اس نے آگے بتا دیے ہوں گے
۔
بھول کے عشق وشق عاجز نے
قدم آگے بڑھا دیے ہوں گے

0
14