| جگہ تھی ایک جہاں میں تھکن اتارتا تھا |
| وہ کھولتی تھی گِرہ اور میں تن اتارتا تھا |
| عجب ہی ڈھب سے بنایا تھا اس کو قدرت نے |
| میں شاہکار سے اک کتنے فن اتارتا تھا |
| اسے پتہ تھا میں دنیا کا بوجھ لایا ہوں |
| سو اس کے پہلو میں جا کر بدن اتارتا تھا |
| نور شیر |
| جگہ تھی ایک جہاں میں تھکن اتارتا تھا |
| وہ کھولتی تھی گِرہ اور میں تن اتارتا تھا |
| عجب ہی ڈھب سے بنایا تھا اس کو قدرت نے |
| میں شاہکار سے اک کتنے فن اتارتا تھا |
| اسے پتہ تھا میں دنیا کا بوجھ لایا ہوں |
| سو اس کے پہلو میں جا کر بدن اتارتا تھا |
| نور شیر |
معلومات