| فراقِ یار میں ہوئے طویل سارے روز و شب |
| میں بھی کہیں نکل گیا وہ بھی کہیں نکل گئے |
| بڑا ہی کُچھ ستم ہوا کہ مُشکلوں میں پڑ گئے |
| میں بھی ذرا بدل گیا وہ بھی ذرا بدل گئے |
| نگاہِ شوق کو بھی اور منزلیں تھیں مل گئیں |
| میں بھی کہیں پھسل گیا وہ بھی کہیں پھسل گئے |
| سوادِ شام بڑھ گیا نظر کو مل گئی نذر |
| میں بھی ذرا مچل گیا وہ بھی ذرا مچل گئے |
| نگاہوں نے لیے تھے تھام گفتگُو کے پیر سو |
| میں بھی ذرا سنبھل گیا وہ بھی ذرا سنبھل گئے |
| وہ چاندنی کی رات تھی تھا چاند میرے رو بہ رو |
| میں بھی ذرا پگھل گیا وہ بھی ذرا پگھل گئے |
| بڑھا کے میری تشنگی وہ انجمن سے چل دیے |
| میں بھی ذرا مچل گیا وہ بھی ذرا بے کل گئے |
| فیصل ملک |
معلومات