تحریر پیار کی جو بھیجی کتاب کے ساتھ
آیا جواب تصویر اور اک گلاب کے ساتھ
۔
کیسے اے رہزنِ دل پہچانتا تمھیں میں
چہرہ چھپا رکھا تھا تم نے نقاب کے ساتھ
۔
اکھڑا ہوا یہ لہجہ اس بات کا ہے عکاس
ہوتے ہیں خار ہی خار شاخِ گلاب کے ساتھ
۔
اس شہر کی زمیں ہو کیوں کر کبھی بھی بنجر
جس کی زمین سیراب ہو پنج آب کے ساتھ
۔
کافی ہیں ہم کو تا عمر عاجز فقط وہ دو پل
گزرے تھے جو کسی شام میرے جناب کے ساتھ
۔
اس وقت ہو گیا میرؔ سے پیار ہم کو عاجزؔ
کالج میں جب پڑھا تھا اس کو نصاب کے ساتھ

0
22