زندگی کربِ مسلسل کے سوا کچھ بھی نہیں
خوب دوڑے ہیں مگر ہم کو ملا کچھ بھی نہیں
جسم کے تاریک زنداں میں ازل سے سخت تر
پائی روحوں نے سزا جن کی خطا کچھ بھی نہیں
چھین لیتی ہے تو پل میں آ کے سانسوں کا ہنر
اے قضا تجھ میں بھلا خوفِ خدا کچھ بھی نہیں
آج چمکا ہے زمانے میں دمِ حسنین سے
ورنہ تو بَن کے سوا کرب و بلا کچھ بھی نہیں
لاکھ ہم نے جو سہے ہیں تیری الفت میں ستم
تو بتا او بے وفا اُن کا صلہ کچھ بھی نہیں
بانٹ بیٹھے ہیں سبھی خوشیاں جو غم کے ماروں میں
اب تو دامن میں بچا غم کے سوا کچھ بھی نہیں
عقل ہے تجھ میں اگر تو پھر سمجھ میرا کہا
ورنہ جو میں نے کہا تو نے سنا کچھ بھی نہیں

0
43