دیدار اُس کا وجہِ شناسائی ہو گیا |
دیکھا اسے تو ہر کوئی شیدائی ہو گیا |
دے دی خِرَد کو میرے جنوں نے شکست یوں |
حسنِ ازل کو دیکھ کے سودائی ہو گیا |
اس کے وجود کا ہوا اظہار اس طرح |
دل سجدہ گاہِ شانِ کب ریائی ہو گیا |
کب اپنے آپ کو رکھا میں نے سنبھال کے |
ہر راہگیر میرا تماشائی ہو گیا |
مانا کہ اس کے وصل کی منزل بھی دُور تھی |
کیوں رابطہ ہی باعثِ رُسوائی ہو گیا |
دھڑکا تھا اس کو دیکھ کے دل زور زور سے |
بے قابو اس کی دیکھ کے انگڑائی ہو گیا |
چاہا جو اس نے ہم یہاں دنیا میں آگئے |
مقصد ہمارا اس کی شناسائی ہو گیا |
ہم اس کی چاہ میں جو گرفتار ہو گئے |
پھر تو ہمارا عشق بھی یکتائی ہو گیا |
طارق ہمارے وصل کے سامان ہو گئے |
جو گیت گنگنا دیا شہنائی ہو گیا |
معلومات