| دیکھا ہے جو اِک میں نے وہی خواب بہُت ہے |
| ورنہ تو وفا دوستو! کمیاب بہُت ہے |
| یہ دِل کی زمِیں بنجر و وِیران پڑی تھی |
| تھوڑی سی ہُوئی تُُجھ سے جو سیراب بہُت ہے |
| کل لب پہ تِرے شہد بھری بات دھری تھی |
| اور آج کے لہجے میں تو تیزاب بہُت ہے |
| اِک میں کہ نِگوڑی کے لیئے جان بکف ہوں |
| اِک جنسِ محبّت ہے کہ نایاب بہُت ہے |
| جب عہد کیا دِل نے کہ بے چین نہ ہوگا |
| پِھر کیا ہے سبب اِس کا کہ بےتاب بہُت ہے |
| کُچھ فرق نہِیں چاند رسائی میں نہِیں جو |
| تُو میرے لیئے اے مرے مہتاب بہُت ہے |
| کمزور عدُو کو ہی سمجھنا ہے تِری بُھول |
| بازُو میں تِرے مانتے ہیں تاب بہُت ہے |
| کچُھ اور کرُوں تُجھ سے بھلا کیسے تقاضہ |
| آنکھوں میں بسا رکھا ہے جو آب بہُت ہے |
| کہتا ہے تُجھے کون کہ تُو ٹُوٹ کے چاہے |
| حسرتؔ کے لِیئے اِک تِرا "آداب" بہُت ہے |
| رشِید حسرتؔ |
معلومات