خوب اپنے عمل سنوارا کر
قبر کے واسطے اجالا کر
جب غمِ آگہی عیاں ہے ہوا
"دشت و صحرا میں اب پکارا کر"
چارہ گر ہی اگر ستم گر ہو
زخم کا خود ہی کچھ مداوا کر
روٹھ جائے عزیزِ من تجھ سے
انکساری تُو پھر سراپا کر
گھر میں موسم بہار آگیں ہو
خرچ اپنوں پہ بے تحاشہ کر
اہلِ فَہْم و فَطَن بھی قائل ہوں
نابِغہ عصر کو شناسا کر
یاس سے بچنے کے لئے ناصؔر
زیست بھر عقبٰی کا سہارا کر

0
67