تو کبھی آۓ اور میرا مہمان ہو جاۓ۔
ہر سو بہار آ جاۓ رت بھی جوان ہو جاۓ۔
ہم آمد کے اتنے طالب ہیں جو تو آ جائے۔
زندگی میری بدلے اب احسان ہو جاۓ۔
جو تیرے گیسوؤں کے پیچ و خم سے بچ جاۓ۔
تو وہ عام نہ خاصا اک انسان ہو جاۓ۔
تو اک بار سے جی بھر دیکھ کے پھیر نظر لے۔
خیر نظر سے اب سچا انسان ہو جاۓ۔
تم احسان کرو اپنے مجھے وقت سے دو وقت۔
ہلچل ختم حیات بھی پھر آسان ہو جاۓ۔
گرچہ یہ ملنا زندگی بھر کی بشاشت دے گا۔
بدلے تو میرا یہ پختہ ایمان ہو جاۓ۔
زندگی تو اتنی گم نام سی کیوں چلی ہے پھر۔
کر جا ایسا کہ تیرا چرچا زبان ہو جاۓ۔
گر آنکھوں سے چھلک پڑیں یہ سب شبنمی موتی۔
بن بادل بارش کا مقام لسان ہو جاۓ۔

0
30