آنکھوں کو اشکبار کروں اس کے بعد کیا |
یوں تیرا انتظار کروں اس کے بعد کیا |
اس دورِ واہیات کے مطلب پرست پہ |
لعنت تو بے شمار کروں اس کے بعد کیا |
میں پھول ہوں چمن کا مگر آپ کے لیے |
کانٹوں پہ اعتبار کروں اس کے بعد کیا |
مانا کہ آپ روزِ قیامت کو آئیں گے |
آخر میں انتظار کروں اس کے بعد کیا |
ہستی مٹا کے رقص کیا موت آگئ |
تیرے بغیر یار کروں اس کے بعد کیا |
نفرت سے آپ روز مجھے غلط کیجیو! |
میں روز پیار پیار کروں اس کے بعد کیا |
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اس بحر میں پکار کروں اس کے بعد کیا |
شاعر :زبیر تارڑ |
معلومات