| مُجھے اِس غم کے دریا کا کِنارا ہی نہیںں مِلتا |
| کہ ڈُوبا اس طرح سے ہوں سہارا ہی نہیں ملتا |
| مُجھے اب آسمانوں کو بھی شاید کھوجنا ہوگا |
| جو اُس کی طرح سے چمکے سِتارا ہی نہیں مِلتا |
| مرے شعروں کو سمجھیں گے جہاں والے بھلا کیسے |
| یہاں تو دل لگی میں کوئی ہارا ہی نہیں ملتا |
| مُجھے معلوم ہے دل کر رہا ہے کام سارے یہ |
| کہوں کیسے محبت کا اِدارہ ہی نہیں مِلتا |
| مرا زادِ سفر مت باندھنا میرے رفیقو تُم |
| مُجھے اُس سمت سے جب تک اِشارہ ہی نہیں ملتا |
| ترے کُوچے کے مَیں اِس واسطے چکر لگاتا ہوں |
| مری آنکھوں کو تُجھ سا کوئی پیارا ہی نہیں مِلتا |
| اُسے سچّی مُحبّت ہو نہیں سکتی کبھی مانی |
| جِسے کارِ مُحبّت میں خسارہ ہی نہیں ملتا |
معلومات