اک عاجزانہ مولا میری ہے یہ دعا
حسنِ جہان دیکھوں دربار ہو سجا
پھر بھول جاؤں دنیا اپنی خبر نہ ہو
لرزے میں دل ہو میرا بولوں نہ کچھ ذرا
میرا جو حال آنسو بھی کہہ سکیں وہاں
ان کو ادب میں روکوں ساکت رہوں کھڑا
منظر حسین تر ہے میرے خیال میں
مسجد نبی میں ہوتا اے کاش میں کھڑا
باراں وہ رحمتوں کے یہ آنکھ دیکھتی
تاباں ہے دہر جن سے وہ دیکھتا میں شاہ
سب جانتے ہیں دل کی آقا کریم ہیں
آیا جو صاف من سے سیراب ہو گیا
سنتے ہیں دور سے بھی ان کی عطا کے کان
وہ جانتے ہیں ان کا کس نے ذکر کیا
محمود جو غنی ہیں مولا کے دان سے
توصیف کر تو ان کی جو دل کو دے جلا

15