کردار اپنے آپ کہانی میں مر گۓ
ٹھہرا دئے تھے فرطِ روانی میں مر گئے
کیا طرز گفتگو تھی کہ دشنام ہو گئی
سادہ سخن بھی شوخ بیانی میں مر گئے
جانا کہاں تھا ہم کو پیمبر کے طور پر
بس یونہی خواب ہاۓ شبانی میں مر گئے
خالص گھٹن میں تازہ ہواؤں کا ہاتھ ہے
پیاسی زمیں کے لوگ تھےپانی میں مر گئے
پھر اک ہجومِ مرگِ تمنا ہے سامنے
سوئے تھے زخم یاد دہانی میں مر گئے
بازارِ حسن، چشمِ طلب، دستِ زر تہی
گلہائے وصل فصلِ گرانی میں مر گئے
شؔیدا زباں نہ کھول کہ رسوائیاں سُنیں
ہم بوڑھے لوگ کیسے جوانی میں مر گئے

0
4