کام کوئی چھٹے آرام نہ ہونے پائے
اور یوں ہو کہ کوئی کام نہ ہونے پائے
دین و مذہب کوئی الزام نہ ہونے پائے
اپنے ہاتھوں کوئی بدنام نہ ہونے پائے
پیش دستی دلِ بسمل جو کرے سوئے حجاب
ترا دیدار سرِ عام نہ ہونے پائے
گر تجھے بھوک ہے شہرت کی تو اللہ کرے
بنا بدنامی ترا نام نہ ہونے پائے
حیف کہ جلوۂ خورشید کے مارے ہوئے ہم
شمع جل جائے مگر شام نہ ہونے پائے
جستجو کے پرِ پرواز نہ تھمنے پائیں
کوئی انسان بھی ناکام نہ ہونے پائے
حسنِ خود آرا نے بخشا ہے ہمیں دام ہوس
گر اسے رام کریں رام نہ ہونے پائے
صلہِ عام رہے ان کے لیے سوزِ دروں
سازِ آہِ زباں پیغام نہ ہونے پائے
شاخِ لالہ کے تلے عرصے سے گلگشت کیا
اور سیہ فام جو گلفام نہ ہونے پائے
گلعذارانِ جفا کش جو یاں آئیں تو کہو
ثانی کہتے ہیں یاں کہرام نہ ہونے پائے

0
17