چاہیں جس کو وہ سوا دیتے ہیں
عشق کو رنگ نیا دیتے ہیں
بھیڑ ہے در پہ سدا منگتوں کی
واہ کیا دستِ عطا دیتے ہیں
آئیں سلطانِ جہاں اس در پر
جن کے داماں کو بڑھا دیتے ہیں
وہ جو شعلہء عطش کو اُس جا
جامِ کوثر سے بجھا دیتے ہیں
ریگ گر سامنے آئے اُن کے
مہر ذروں کو بنا دیتے ہیں
آنکھیں جو نم ہیں غمِ ہجراں میں
یہ گراں اِن کو صلہ دیتے ہیں
بے نیازی ہے یہ سلطاں کی ہے
عبدِ گریاں کو بڑا دیتے ہیں
فاقہ رکھتے ہیں وہ گھر دیکھو مگر
خُلد خیرات میں جا دیتے ہیں
ٹیک گریاں جو اگر یاد میں ہو
اسے جنت میں لگا دیتے ہیں
نظرِ مہر ہو جب بھی اُن کی
لعل پتھر کو بنا دیتے ہیں
کرم محمود پہ بےحد شاہا
طعنہ کیوں کر یہ عدا دیتے ہیں

0
6