آیا کیجیۓ میرے شبستان میں
گنگنا یا بھی کیا کیجیے کان میں
ساتھ تیرے بھی دنیا ہے مضمر یہاں
مجھ سے ناچیز کے غمِ عرفان میں
غم کی شب میں نہ برداشت کر پایا سو
ڈوبتا تھا میں غالب کے دیوان میں
یاد کے تیری روزن کو تکتے رہے
زندگی یوں گزاری ہے زندان میں
دل ہے پاگل کسی اور پر آجاۓ تو
اس لیے ہم نے رکھا تمہیں جان میں
ویسے تو ساتھ ہو تم خیالات میں
پر بچھڑنے کا ڈر بھی ہے امکان میں
آرہا ہے وصل کا پھر وہ موسم عبید
ہم پہ کیا گزرے گی یہ زمستان میں

0
80