Circle Image

Ubaid khan

@Ubaid

سب ہی گیا مٹا کے وہ سلسلے تو کیا
تھے اور بھی جدایی کے فیصلے تو کیا
اب نور اور ظلمت میں فرق ہی نہیں
کویی دیا مکاں میں جلتا رہے تو کیا
ہم دونوں ہی محبت سے خالی رہ گیے
ہم نے جو لاکھ باندھے تھے حوصلے تو کیا

0
54
ہر ایک لمحہ مجھ کو وہ اداس رکھتا ہے
یہ دل بہت ملن کی جس سے آس رکھتا ہے
لبوں سے کاش تم نے چوما ہوتا ہی کبھی
یہ رند بھی لبوں پہ اپنے پیاس رکھتا ہے
مری وفا ہی پر نہیں ہے اک یقیں اسے
وہ ساتھ اپنے آدمی شناس رکھتا ہے

0
104
لیٹے لیٹے خود کو ہی سمجھا رہے ہیں
چشمِ حیراں سے بھی آنسو جارہے ہیں
سوگ ہی سارا منالوں یا خوشی بھی
مرنے کے شاید مرے دن آ رہے ہیں
راتوں کا میری ذکر مت چھیڑوں جاناں
ہجر کے تمہیں وہ دن گنوا رہے ہیں

0
89
کل جو ظالم تھا وہ ہی مظلوم ہوگیا
کارِ ظلمت نیکی سے موسوم ہوگیا
بارہا مجھ کو چھوڑ کے جانے والے
گھر مرا تجھ کو کیسے معلوم ہوگیا
تجھ پہ لوگوں کی بد دعائیں ہوں گی جو
نام تیرا غزلوں کا مفہوم ہوگیا

0
99
کیا کہاں تم نے کہ برا لگتا ہے
زخمِ محبت تو ہرا لگتا ہے
راۓ کیا غیر نے دی ہے اسے
دور ہے تو بھی وہ خفا لگتا ہے
جانے کیوں کس نے ہے اسے بدلا یوں
بات کبھی کرلے خدا لگتا ہے

0
94
ہجر جب یہ گزر جاۓ گا
ہم کو تا مرگ یاد آۓ گا
تونے ہے دل جو توڑا مرا
دل ہی دل خوب پچھتاۓ گا
کون آرام ہے یہ کہو
مر میں جاؤں گا تب آۓ گا

0
114
آیا کیجیۓ میرے شبستان میں
گنگنا یا بھی کیا کیجیے کان میں
ساتھ تیرے بھی دنیا ہے مضمر یہاں
مجھ سے ناچیز کے غمِ عرفان میں
غم کی شب میں نہ برداشت کر پایا سو
ڈوبتا تھا میں غالب کے دیوان میں

0
78
تھراتے ہوۓ جب کویی گام آجاتے ہیں
ہم ہو کے میکدے سے بدنام آجاتے ہیں
کس کی وفا پہ اتراؤں کس کو بھول جاؤں
اس الجھے ذہن میں لاکھوں نام آجاتے ہیں
اپنی غزل سے اوروں کا درد ہی مٹالوں
کچھ یوں دہر میں لوگوں کے کام آجاتے ہیں

0
105
یاد میں تری میرا دل مچل گیا ہوگا
اور تڑپ تڑپ کے دن بھی یہ ڈھل گیا ہوگا
ہم نے رکھے ہیں دل پر زخم یہ محبت کے
ا ور وہ زخم بھی کیا آخر جو سل گیا ہوگا
میرا یار تھا دل کا وہ بہت ہی سیدھا سا
وہ بھی باتوں میں غیروں کی پگھل گیا ہوگا

0
5
131
ویسے آج کل جی نے ہے مجھے رلایا تو
کیا ہو گر تجھے پاکے چین بھی نہ پایا تو
یہ بھی آزمائش ہی ہے گویا اپنی یاں
وہ خدا نے تکلیفوں میں ہے مجھ کو لایا تو
چلو بزم میں مجھ پر بھی نظر تو تھی ان کی
اک بہانے مجھ کو محفل سے تھا اٹھایا تو

0
97
کسی نظر نے کیا پِلا دیا مجھے
میں ہوش میں تھا پر سلا دیا مجھے
یہ جام ہے اٹھایا تمہیں بھولنے
پی چاۓ تم نے اور بھلا دیا مجھے
میں صرف تجھ سے ملنے آیا تھا یہاں
پہ تونے سب سے ہی ملا دیا مجھے

0
85
وہ ہم سے پوچھتے بے جا یوں ستایا کیوں
جب عشق ہی نہیں تھا ہم سے جتا یا کیوں
جب بار کو یہ اٹھا کر پھینکنا ہی تھا
پھر برسوں بوجھ الفت کا یہ اٹھایا کیوں
ہر گل ہے یہ دہر میں ہونے فنا تو پھر
خوشبو کو گلوں کی خود میں ہے بسایا کیوں

0
75
بس ایک ہی لیے میں نقصان رہتا ہوں
میں اپنے گھر میں بن کے مہمان رہتا ہوں
سب ہی حقیقتیں دیتی ہیں اذیتیں
ان سب حقیقتوں سے انجان رہتا ہوں
گھر تھاکبھی محبت کے شہر میں مرا
اس واسطے میں پیہم ویران رہتا ہوں

0
87
خفا جو مجھ سے تھا کبھی پہ اب بلانا پڑا پھر
وہ مجھ کو بھولا جو تھا خود مجھے ملانا پڑا پھر
ہمارے میں یہ مزا جو کہ عشق میں کم ہوا سو
منانے ان کو ہمیں اور بھی ستانا پڑا پھر
جنازہ چاہت کا جو نکلا اور کویی نہ تھا ساتھ
اسے کہ اپنے یہی ہاتھوں سے اٹھانا پڑا پھر

0
124
چھا میں جاؤں گا چمن میں کبھی خوش رو ہو کر
میں تو آخر یوں ہی اڑ جاؤں گا خوشبو ہو کر
ہونٹ اور سرخ ہو جا ئیں میں گر کانٹ لوں جو انھیں
سن یہ وہ شرما گیا اور بھی خوں رو ہو کر
دل سزا کب ہی تلک دے گا تیرے کیے کی
یہ جگر بس پو چھتا ہے لہو لہو ہو کر

0
199
یہ غم کی جب بھی کبھی کہیں ترجمانی ہوگی
تو سامنے بس ہماری ہی زندگانی ہوگی
تو یعنی سچ مچ مجھے بھلا ہی چکے ہو تم بھی
تو شکریہ آپ کی بڑی مہربانی ہوگی
مجھے یہاں تو یوں اک ہی دھن ہے سوار وہ یہ
کہ جان چھوٹے گی کب بسر کب جوانی ہوگی

0
84
مری جانِ وفا میں یہ نہیں دشمن کہ تیرا ہوں
مجھے شبِ الم سا بھول جا میں بس اندھیرا ہوں
خبر کچھ بھی نہیں کب اشکوں سے سیراب ہو مٹی
یہاں کھل بھی نہ سکے خار میں وہ سخت صحرا ہوں
الگ ہیں مجھ سے دنیا اور اس کی وارداتیں سب
اجڑ ہے جو بچھڑ ہےجو گیا ان کا بسیرا ہوں

10
165
بعد میرے سب سے مری گفتگو ہی ہوتی رہی
میں کہ دسترس میں نہ تھا جستجو ہی ہوتی رہی
میری تو نہیں پہ غزل میری پڑھ کے سو یاں کبھی
دیکھنا کسی کی وفا سرخ رو ہی ہوتی رہی
پھیلی ہے یہ رندگی وہ بھی تما شا یوں ہے اے دل
بات رسوا یی کی مری کو بہ کو ہی ہوتی رہی

0
61
دھندلی سی اپنی پرچھائی میں ملوں گا
میں تمہیں بھی بابِ رسوائی میں ملوں گا
مت ڈھو نڈھنا تم محبت کے لمحوں میں مجھے
میں تمہیں وہاں بھی تنہائی میں ملوں گا
ان فراق کے یہ باغات میں کہیں بھی میں
بکھری خوشبو کی پذیرائی میں ملوں گا

0
139
دن یہ مہینوں پھر سالوں میں بدل گئے
آخر تڑپ تڑپ کر ہم بھی سنبھل گئے
اک ہم ہیں خواب سے تیرے جو نہ آسکے
اک تم ہو جو مرے کوچہ سے نکل گئے
دنیا جوانی میں جاتی ہے بہک اے شیخ
تم تو یہاں پہ پیری میں بھی پھسل گئے

99
سب تو بہہ گیا ہے اب وقت کے یہ دھارے میں
ہم نے ورنہ کیا کچھ سوچا تھا تیرے بارے میں
غم خوشی یا احساسات حکم دے میں کیا دکھلاؤں
کچھ کیا کچھ چھپا ہے یاں غزلوں کے پٹارے میں
پل کو دل یہ مچلا میرا مگر سنبھل آیا
ورنہ برق سا کھنچاؤ تھا وہ اک اشارے میں

117
کیسی یہ بلا ڈھائی جا رہی ہے
ہم کو چائے پلائی جا رہی ہے
ہم ہی اردو کا مرکز ہے جی ہم کو
یاں تمیز سکھائی جا رہی ہے
بن بیاہی ہے کوئی پری لڑکی
وہ بے وجہ ستائی جا رہی ہے

0
70
کوئ سو اس سے بھلا کیوں احتراز کرے
یہ مرضی اس کی وہ جس کو سرفراز کرے
ذرا پرانی خطائیں بھی لے کر چلو ساتھ
کہ جھوٹ سے یہ سفر نہ جاں گداز کرے
یہاں سبھی ترے ذمہ ہی ہیں شیخ میاں
کسی کو رند کسے تو پاک باز کرے

0
102
امیرِ شہر تیرے سارے جملوں سے جی اٹھ گیا
پریشاں ہے نہیں کویٔ مسلوں سے جی اٹھ گیا
ہے وہ غذا کہاں پہ دہقاں کو ہے یہ سلام اب
کسٹ کی کھاتے ہیں سبھی پہ فصلوں سے جی اٹھ گیا
یقیں ہے تیرا با پ بھی طوائفوں کے گھر میں تھا
معاف کرنا پر تری یہ نسلوں سے جی اٹھ گیا

0
57
پر نور چشم ان کی گو آبگین ہے بہت
موسم بھی ویسے اب کہ یہ رنگین ہے بہت
آخر کیوں لڑتے ہیں انا میں یہ ملک بھلا
بس خون سے زمین یہ غمگین ہے بہت
تقریر کا اے واعظ اثر تیری کیا کہوں
مانا کہ تیری شوخ یہ تلقین ہے بہت

12
148
دائم فروزاں دل کی یہ دھڑکن ہے
سوزن سے گوشہ گوشہ کہ روشن ہے
میں بھی ہوں ایک مولا ترا بندہ
عقبی بنا ترے لیے ممکن ہے
شیریں زباں کیوں کر نہ ہو یہ میری
پر زور ریختہ لے میں دکن ہے

0
82
جو بچھڑ گیا جو گزر گیا اسے بھول جا
ؤہ جو پھر نہ ملا وہ مر گیا اسے بھول جا
وہ اندھیرا تیرے سبھی اجالے چرا گیا
نہ تو سوچ وہ ہے کدھر گیا اسے بھول جا
یہ جو دل ہے تیرا سو چھالوں سے بھرا ہے
سو گر ایک چھالا ابھر گیا اسے بھول جا

0
107
جگر کی بہت مشکلوں سے تھے گزرے
ہاں گویاکہ ہم رحلتوں سے تھے گزرے
یہ بارش یہ سرما یہ گرما کے موسم
سبھی درد کے مرحلوں سے تھے گزرے
نتیجہ جدایٔ بن اور کچھ نہیں تھا
یوں چاہت کے سب فیصلوں سے تھے گزرے

0
10
145
بڑی سی اک جسارت کر رکھی ہے
محبت میں عداوت کر رکھی ہے
ترا دل کش میں لکھ لوں نام جاناں
میں نے اردو کتابت کر رکھی ہے
وفا پر وہ نہ قائم ہی تھا تا ہم
یہ الفت کی تجارت کر رکھی ہے

0
76
ہر شبِ ہجر کو میرے نام کرنے والے
آباد رہ تو عمدہ یہ کام کرنے والے
راتیں بھی ُان کی اب کٹتی ہیں نہیں کیوں آخر
وہ ہیں کدھر دنوں کوجو شام کرنے والے
اک موجِ ریگ اڑا لے گی یہ نشان ِ الفت
بیدار ہو سا حل پر اے نام کرنے والے

0
80
محتاط میں جو یوں اپنوں سے رہا کرتا ہوں
یہ زہر ہے دوستی کا جو پیا کرتا ہوں
کیاخوب جو شام کو پیتا ہوں میں بھی شراب
اور فجر ہوتے ہی توبہ کر لیا کرتا ہوں
اور جتنی پی کر یاں یہ ناداں بہکتا ہے حیف
آبگین میں چھوڑ اتنی میں دیا کرتا ہوں

0
61
نام اپنے ہے گندگی لے لی
چھوڑ عصمت ہے رند گی لے لی
صرف کچھ راتیں مانگی تھی میں نے
اس غزل نےتو زند گی لے لی
تم پری ہو رہینِ احکامات
اک نظر میں ہی بندگی لے لی

58
الفت کے وہ خداؤں سے باتیں کرنی ہیں
کچھ حسن کی بلاؤں سے باتیں کرنی ہیں
اب ہم کو زندگی بھر کچھ بولنا نہیں
اب ہم نے بس نگاہوں سے باتیں کرنی ہیں
کچھ دیر یہ حرم میں رک جا تے ہیں ذرا
اپنے ہمیں گناہوں سے باتیں کرنی ہیں

0
72
دل درد کے مدرسے سے اب تو اٹھتا نہیں
اور یہ سبق مکتبِ غم کا جو رکتا نہیں
عاشق کی بس ہے صدا ہرسو جو اڑتی چلے
اس پر ستم ہے کہ تو بھی اس کو سنتا نہیں
پہلے تو الفت میں مر جایا ہی کرتے تھے لوگ
پہلے یوں چلتا تھا اب ایسا تو چلتا نہیں

0
75