| اس نے سونپا ہے مجھ کو سنّاٹا |
| میں جسے بھیجتا رہا آٹا |
| زندگی ہم نے یوں بسر کی ہے |
| وقت جیسے ہو جیل میں کاٹا |
| نفع کھاتے میں اسکے بھیج دیا |
| اپنے حصے میں رکھ لیا گھاٹا |
| ہڑ بڑا کر میں اٹھ کے بیٹھ گیا |
| اس نے ایسے لیا تھا خرّاٹا |
| کر کے اقرار پِھر گیا ہے جو |
| اس نے تھوکا ہؤا ہے پھر چاٹا |
| شکر ہے جان بچ گئی میری |
| کار گرزی ہے بھر کے فرّاٹا |
| چاروں صوبے رشیدؔ پیارے ہیں |
| بانچواں انگ اپنا ہے فاٹا |
| رشِید حسرتؔ |
| ۳۰ مئی ۲۰۲۵ |
معلومات