تو غیر کے مطرب پہ بھروسہ کیے بیٹھا
اس سازِ ازل میں ترے کچھ سوز نہیں کیوں
قائد نے تجھے دیں گلِ فردا کی امیدیں
دامن میں ترے گل کوئی امروز نہیں کیوں
بت خانۂ افرنگ سے تاریک ہے دنیا
یہ کعبۂ مشرق جہاں افروز نہیں کیوں
تب درسِ ظفر تجھ سے ہی پاتا تھا جہاں بھی
اب تو ہی جہاں میں کہیں فیروز نہیں کیوں
منظورِ نظر سارے زمانے میں رہا کل
امروز تو کل کے لیے دلدوز نہیں کیوں
ثانی تو نے نغمہ بڑی مدت میں سنایا
گلشن میں تو نغمہ سرا ہر روز نہیں کیوں

0
16