جب زرا خورشید ڈوبے، رات آئے
گھیر لیتے ہیں تِری یادوں کے سائے
جادہِ منزل کے تارے بن گئے
میں نے جو وقتِ سحر آنسو بہائے
گِرد اُن کے ہے ہجومِ پاسباں
بزم میں جائے کوئی تو کیسے جائے
تم کو دیکھا تو مِرے دل نے کی چاہ
بارہا تیری گلی میں آئے جائے
معتقد ہم جوش کے تھے اِس لیے
اِک محبت پر گزارا کر نہ پائے
جو کسی دلکش پہ آ جائے کبھی
مقصدِ تخلیقِ دل پورا ہو جائے
شاہدؔ ایسی زندگی میں لطف ہے
صحبتِ یاراں میسر جس میں آئے

0
80