| اک بدبو دار جسم اٹھاتا رہا ہوں میں |
| جیتا رہا سزا یہی پاتا رہا ہوں میں |
| میں نے کسی کا خواب نہیں دیکھا تھا کبھی |
| لیکن سبھی کے خوابوں میں آتا رہا ہوں میں |
| دیکھی ہے تیرے ہجر میں جب سے یہ زندگی |
| خود کو وصال سے بھی ڈراتا رہا ہوں میں |
| یہ اور بات آ نہ سکا کوئی میرے تک |
| ہر شخص ہی کو ورنہ بلاتا رہا ہوں میں |
| ہاں اس کا جسم میری سہولت میں تو تھا پر |
| تا عمر اپنا جسم جلاتا رہا ہوں میں |
| ہر شخص بے وفا ہوا ہو ایسا بھی نہیں |
| چاہا جسے میں نے، اسے بھاتا رہا ہوں میں |
| وہ صرف چار روز رہی میرے ساتھ شیر |
| اور چار روز دل ہی دکھاتا رہا ہوں میں |
| نور شیر |
معلومات