غزل
بھولی بسری سی کہانی تھی اسے یاد نہ کر
وہ جو منہ زور جوانی تھی اسے یاد نہ کر
عشق کے گیت سبھی پیار کے نغمے سارے
ایک جذبوں کی روانی تھی اسے یاد نہ کر
چند لمحوں میں ہی من موہ لیا کرتے تھے
کس قدر شعلہ بیانی تھی اسے یاد نہ کر
اشک پی کر بھی ہمیں ہسنا ہسانا ہی پڑا
یہ بھی اک رسم نبھانی تھی اسے یاد نہ کر
چوٹ جو کھائی محبت میں بھلانی ہی پڑی
زندگانی تو بتانی تھی اسے یاد نہ کر
بن کہے آنکھوں سے اشکوں میں بہایا جس کو
داستاں ان کو سنانی تھی اسے یاد نہ کر
اس کو بھی بات کوئی کرنی تھی مجھ سے انور
ہم نے بھی بزم سجانی تھی اسے یاد نہ کر
انور نمانا

0
7