| کیا ہوگی مرے خواب کی تعبیر بتاؤ |
| مشکیں ہے مرے پاؤں میں زنجیر، بتاؤ |
| یہ ملک مرا روز تنزّل کو رواں ہے |
| کیا اس کا علاج، اس کی ہے تعمیر، بتاؤ |
| کی جس کے لیے چوری وہی چور بتائے |
| کیا ہوگی بھلا ایسوں کی تعزیر بتاؤ |
| نظروں میں تمہاری جو نہیں ہے نہ سہی پر |
| اپنی تو ذرا شہر میں توقیر بتاؤ |
| کیا وجہ کہ ہم دولتِ ایماں سے تہی ہیں |
| مسلم ہوں سبھی ایک وہ تکبیر بتاؤ |
| دشمن کو گماں ہم میں تب و تاب نہیں |
| اب ان کو ذرا جوہرِ شمشیر بتاؤ |
| جتنا ہو رشیدؔ ان کو رویّے پہ ندامت |
| لوٹے ہیں کمانوں میں کبھی تیر، بتاؤ؟ |
| رشِید حسرتؔ |
| ۲۸ اگست ۲۰۲۴ |
معلومات