| نہ سوال ہے نہ جواب ہے نہ ہی اور مجھ کو خیال ہے |
| ترا تذکرہ ہی درونِ دل مری زندگی کا مآل ہے |
| نہ ہوس ہے دولت و مال کی ، نہ ہی تخت کی نہ ہی تاج کی |
| جو بھی مل گیا کبھی زر مجھے، تو مرے لیے ہی وبال ہے |
| مرا کون ہے جو سوا ترے، کبھی میرا واقفِ حال ہو |
| تو قریب ہے رگِ جاں سے بھی، تو ہی جانتا ہے جو حال ہے |
| ترے در پہ سر بسجود ہے ترے در کا ہی ہے وہ معتکف |
| یہ جبینِ حمزؔہ جو جھک گئی تو پھر اس کا اٹھنا محال ہے |
معلومات