ابھی خاموش ہیں لہریں کنارہ کون کرتا ہے
بھنور میں دیکھنا آخر سہارا کون کرتا ہے
بلا مقصد یہاں اب تو نہیں ملتی محبت بھی
کہ یک طرفہ محبت میں گزارا کون کرتا ہے
بڑے عامل ہیں جو لائیں مرا محبوب قدموں میں
نظر فرقت کہ ماروں کی اتارا کون کرتا ہے
محبت ہم نہیں مانیں گے اس شیریں بیانی کو
بنا حاجت کسی کو یوں پکارا کون کرتا ہے
کہ مقتل میں نہیں مجھ کو ستم گر سے ذرا مطلب
مجھے تو دیکھنا یہ ہے اشارہ کون کرتا ہے
توقع سعد دنیا سے نہیں مجھ کو کہ بس جس میں
بنا مشکل خدا کو اب پکارا کون کرتا ہے

24
502
ملک صاحب غزل اچھی ہے اور بھی اچھی ہو سکتی ہے
ابھی خاموش ہیں لہریں کنارہ کون کرتا ہے
بھنور میں دیکھنا آخر سہارا کون کرتا ہے
سہارا ہوا جاتا ہے یا بنا جاتا ہے سہارا کون کرتا ہے غلط اردو ہوگی۔

بلا مقصد یہاں اب تو نہیں ملتی محبت بھی
کہ یک طرفہ محبت میں گزارا کون کرتا ہے
دیکھے یہ شعر دو لخت ہے۔ یعنی دونوں مصرعوں میں الگ الگ بات ہو جنکا آپس میں ربط نہ بتایا جاۓ
بلا مقصد محبت کا یک طرفہ محبت سے کوئ تعلق نہیں

بڑے عامل ہیں جو لائیں مرا محبوب قدموں میں
نظر فرقت کہ ماروں کی اتارا کون کرتا ہے
یہ بھی دو لخت ہے -
محبت ہم نہیں مانیں گے اس شیریں بیانی کو
بنا حاجت کسی کو یوں پکارا کون کرتا ہے
یہ تعقیدِ معنوی ہے - شیری بیانی کا حاجت سے تعلق کیا ہےَ؟
کہ مقتل میں نہیں مجھ کو ستم گر سے ذرا مطلب
مجھے تو دیکھنا یہ ہے اشارہ کون کرتا ہے
توقع سعد دنیا سے نہیں مجھ کو کہ بس جس میں
بنا مشکل خدا کو اب پکارا کون کرتا ہے

یہاں بھی دیکھے جس دنیا سے آپ کو توقع نہیں ہے اس میں لوگ آپ کے بقول خدا کو بغیر مقصد نہیں پکارتے تو آپ کا اس میں توقع رکھنا کس بات کا ہے کیا وہ آپ کو پکاریں گے مشکل میں

الغرض یہ سب خوبصورت الگ الگ مصرعے ہیں جن میں آپ تعلق پیدا نہیں کر سکے ہیں

0
بلا مقصد یہاں اب تو نہیں ملتی محبت بھی
کہ یک طرفہ محبت میں گزارا کون کرتا ہے

آج کی محبت جھوٹی ہے اور لوگ مقصد کے تحت ڈھونگ کرتے ہیں۔ اور دوسری طرف جب سچی محبت کرنے والا یہ جان لیتا ہے تو وہ بھی پھر یک طرفہ محبت سے دل برداشتہ ہو جاتا ہے۔

کیا دونو مصرعوں میں ربط بنا ؟

0
حضرت آپ کے سوال میں ہی آپ کا جواب ہے
جب شاعر کو خود ہی سمجھانا پڑے کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے اورمحذوف الفاظ یا جملے کون کون سے ہیں تو اس ہی کو تو تعقیدِ لفظی یا معنوی کہتے ہیں ۔
ابہام ایک الگ صفت ہے۔

0
مجھے سمجھ نہیں آیا کے آپ کیا کہنا چاہتے ہیں، میں نے آپ کو شعر کا مفہوم بیان کیا ہے اور بتایا ہے کے شعر کے دونوں مصرعے مل کر ایک خیال بیان کر رہے ہیں۔


0
مزید یہ کے اگر آپ میرے علم میں کوئی اضافا کر سکتے یہں تو کچھ ریفر (refer) کر دیں

0
بقول ناصر کاظمی
میں نے تو اک بات کہی تھی
کیا تو سچ مچ روٹھ گیا ہے؟

جناب میں بھی آپ کو اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں یہ کوئ اصول نہیں کہ کوئ حوالہ دوں
پسند نہ آۓ تو سر خوش رہیں ۔

آپ نے لکھا کہ

"آج کی محبت جھوٹی ہے اور لوگ مقصد کے تحت ڈھونگ کرتے ہیں۔ اور دوسری طرف جب سچی محبت کرنے والا یہ جان لیتا ہے تو وہ بھی پھر یک طرفہ محبت سے دل برداشتہ ہو جاتا ہے۔"

یہ بتائیے کہ پڑھنے والے کو یہ کہانی کیسے سمجھ میں آے گی کہ دو محبت کرنے والے ہیں ایک سچا ایک جھوٹا۔
ایک دن سچی محبت کرنے والا یہ جان لیتا ہے کہ سامنے والا جھوٹا ہے تو وہ اپنی محبت سے دلبرداشتہ ہو جاتا ہے"

شعر کوئ فلمی سٹوری نہیں ہے یہاں بات کی جاتی آفاقی یا اصولوں کی۔
اگر آپ کا پہلا مصرعہ ایک اصول بیان کر رہا ہے کہ "بلا مقصد یہاں اب تو نہیں ملتی محبت بھی"
تو دوسرا ایک دروسرا اصول
کہ یک طرفہ محبت میں گزارا کون کرتا ہے
مجھے بتاۓ ان میں کیا تعلق ہے؟ جبتک آپ یہ سٹوری نہ سنایں
دیکھئے بہت سے لوگ یک طرفہ محبت میں گزارا کرتے ہیں ان کے لیے وہی صحیح ہوتا ہے۔ آپ کے لئے نہیں ہے کیونکہ آپ کو پتا چلا کہ دوسرے کی محبت جھوٹی ہے تو آپ نے بھی چھوڑ دی۔ یہ صرف آپ کی سٹوری ہوئ کوی
کلیہ نہیں۔

اب بھی اتفاق نہ کریں تو میرے میسج کو لات مار کے ایک طرف کر دیجیہے گا

0
سر، اگر شعر بالکل سیدھا ہی ہو تو سعر کا مزا کیا۔ شعر کے دونو مصروں میں کلیہ نہیں ہے اک خیال ہے۔ پہلا مصرع واضح کر رہا ہے کے جھوٹی محبت عام سی بات ہو گئی ہے مگر لازم نہیں کرتا۔

دوسرے مصرعے میں اس کے انجام کی نشان دہی کی گئ ہے کہ پھر بھلا کون ہے جو جھوٹی محبت کو جان کر بھی اس پر گزارا کرتا ہے۔ اور اگر کوئی کرنا چاہے بھی تو یا تو دیوانہ ہو جاتا ہے یا پھر دل میں ایک شک رہ جاتا ہے جس کے ہوتے ہوئے محبت زندہ نہیں رہتی۔

میں اپنے شعر کے بیان کردہ خیال سے بالکل واضح ہوں۔ اور آپ کی کہی ہوئی کسی بات سے اتفاق نہیں کرتا۔ لیکن آپ نے اظہار کیا مجھے اچھا لگا ہم سب سیکھ رہے ہیں۔

حوالہ مانگنے کا مقصد تھا کے میں پڑھ کر اپنے علم میں اضافہ کر سکوں۔ میں پھر کزارس کروں گا کہ اگر میرے علم میں اضافے کے لئے کچھ پڑھنے کے لئے دے دیں

0
جناب یہ تو آپ کا حق ہے آپ اس شعر کے خالق ہیں۔
حوالہ کے لیۓ میں اتنا ہی کہوں گا کی عیوبِ سخن پر دستیاب کوئ بھی کتاب یا یو ٹیوب پر اس سلسلے کی کوئ بھی ویڈیو دیکھ لیں۔

0
جی بہتر۔ ویسے میں عروض پر دو یوٹیوب چینلز دیکھ رہا ہوں۔ آپ نے میرا اور کلام پڑھا ؟ پڑھ کر بتائے گا۔ آپ کی نظر کرم کے لئے شکر گزار ہوں۔

0
سر پڑھا آپ کا اور کلام - معنی کے لحاظ سے اس سے بہتر ہے باقی میری بات وہی ہو گی جس پر آپ کہہ چکے ہیں کہ اتفاق نہیں کرتے لہازا رہنے دیں

0
جی شکریہ کیا آپ کسی استاد سے میرا رابطہ کروا سکتے ہیں ،یاآپ بھی خود اپنی مدد آپ سیکھ رہے ہیں

0
آپ نے اگر ویب پہ اسامہ سرسری صاحب کے وڈیوز دیکھۓ ہیں تو وہ باقاعدہ شاعری کے کورس کرواتے ہیں اور میرے خیال میں وہ بے انتہا مفید ہیں

ارشد صاحب، اگر پہلا شعر اس طرح کر دیں تو

بھنور میں دیکھنا آخر سہارا کون بنتا ہے
ابھی خاموش ہیں لہریں کنارہ کون کرتا ہے

0
@Arshad1 بھائی نے اچھے مشورے دئیے ہیں۔البتہ ایک بات کہوں گا کہ کورس کرانے کا مطلب یہ نہیں کہ بندہ استاد بھی بن جاتا ہے۔ ?

@Malik21 آپ نیچے اردو ویب کے لنک پر رجسٹر کریں۔ وہاں آپ کو اصلاح سخن زمرے میں اچھے مشورے ملا کریں گے۔

آسی صاحب (@yaqubassy) بھی بہت اچھے مشورے دیتے تھے، افسوس انکا پچھلے دنوں انتقال ہو گیا۔ اللہ ان پر رحم کرے۔ آمین۔

0
Zeeshan@ بھائی کون سا لنک ؟

0
@Zeeshan بھائی کون سا لنک ؟

0

0
ملک صاھب
بھنور میں دیکھنا آخر سہارا کون بنتا ہے
ابھی خاموش ہیں لہریں کنارہ کون کرتا ہے

یہ شعر پہلے کی نسبت اب اچھا ہوگیا۔ اس میں صنعتَ تضاد بھی اچھا ہے
مگر دونوں مصرعوں کا آپس میں ربط کمزور ہے - بھنور میں دیکھنا ایک سٹیٹمنٹ ہے جسکا براہِ راست دوسرے سے لنک واضح نہیں ۔ دیکھۓ میرے خیال میں شاید آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں

ابھی خاموش ہیں لہریں کنارہ کون کرتا ہے
بھنور بن جائیں تو دیکھیں' سہارا کون بنتا ہے

0
نہیں، میں اپنے شعر کے مفہوم اور خیال پر بالکل واضح ہوں

0
ضرور جناب - میں نے تو اپنا خیال بتایا تھا اس شعر کے خالق آپ ہی ہیں جو آپ کو صحیح لگے وہی حرفِ آخر ہوگا۔
مگر اس حرفِ آخر کا صحیح ہونا ایک الگ بات ہے -

0

0
جی میں نے اندراج کر لیا ہے

0
محسوس درد ِ دل تو ہوا بے کراں نہ تھا
تکلیف تھی ضرور مگر نیم جاں نہ تھا
محظوظ لوگ ہو نہ سکے وعظ سے ترے
تقریر میں تری ذرا زورِ بیاں نہ تھا
موضوع گفتگو بنی تھی ذات جب تری
اُس وقت یار اُن کے میں تو درمیاں نہ تھا
اب راز راز ہی نہ رہا افشا ہو گیا
اس شہر میں کوئی مِرا جو راز داں نہ تھا
مُجھ کو خیال تھا تری عزت کا اس لئے
خاموش میں تھا محض کوئی بے زباں نہ تھا
مصروف بے پناہ ملاقات جو نہ کی
لیکن نواز تُجھ سے کبھی بد گُماں نہ تھا
نواز اصطفےٰ
تبصرہ فرمائیں

0
نواز صاحب اس غزل کو اپنے نام کے ساتھ پوسٹ کردیں تو وہاں اس پہ بات کر سکتے ہیں اس تھریڈ میں صحیح نہیں رہے گی

0