کرم ہو حبیبی مدینے میں آؤں
نصیبہ ہو روشن میں خوشیاں مناؤں
مدینے میں دیکھوں حسیں سبز گنبد
نظارے میں سارا جہاں بھول جاؤں
ہو منظر میں جس دم سنہری وہ جالی
درودوں کے موتی لبوں پر سجاؤں
نہ لوں سانس اونچی میں مسجد نبی میں
نہ کچھ مانگوں اس جا نہ جھولی پھلاؤں
ضرورت یہاں پر ندا کی نہیں ہے
میں ہر گز نہ شکوہ کوئی لب پہ لاؤں
کمی دور کر دے نظر مصطفیٰ کی
ترانے نبی کے میں خوشیوں سے گاؤں
گراں آئیں نوری یہاں دست بستہ
اے محمود لفظوں میں کیا کچھ بتاؤں

16