نکل کے آنکھ سے آنسو یہ موتیوں کی طرح
منا رہے ہیں محبت کی مات کا ماتم
ذرا سا دیکھ لو اِن کو بھی جن کی آنکھوں نے
بدن کی موت پہ رکھا ہے ذات کا ماتم
نہ دن نے ساتھ دیا اور نہ رات تھم پائی
تمام عمر رہا یونہی رات کا ماتم
نگاہِ شوق میں ابھرا وہ تشنگی کی طرح
لبوں کو سی کے کیا ہم نے بات کا ماتم
نہ تشنہ لب تھے۔سمندر تھے اپنی قدرت میں!
تو کس کے غم میں کیا تھا فرات کا ماتم؟
تو جسم پھینک دیا روح کی ضرورت میں
پھر اُس کے بعد کیا باقیات کا ماتم
خودی کو توڑ کے ہی تو بنائی تھیں خوشیاں
کہ اشک پی کے کیا انبساط کا ماتم
سید ہادی حسن

0
34