جگر کی بہت مشکلوں سے تھے گزرے
ہاں گویاکہ ہم رحلتوں سے تھے گزرے
یہ بارش یہ سرما یہ گرما کے موسم
سبھی درد کے مرحلوں سے تھے گزرے
نتیجہ جدایٔ بن اور کچھ نہیں تھا
یوں چاہت کے سب فیصلوں سے تھے گزرے
تھی چاہت کہ جن کو یہ روحانیت کی
وہ لاہوت کے زلزلوں سے تھے گزرے
تری بزم میں جلنے سے قبل ہم سو
گرم صحرا کی منزلوں سے تھے گزرے
ذرا اک کڑی تو مرے نام ہوتی
محبت کے ہم سلسلوں سے تھے گزرے

0
10
146
سلام
1. پہلے شعر کے دوسرے مصرع میں ایک سببِ خفیف کی کمی ہے، اصلاح یعنی یوں ہو سکتی ہے:

ہاں گویا کہ ہم رحلتوں سے تھے گزرے

2. دوسرے شعر میں سرماں اور گرماں میں املا کی غلطی ہے، درست املا سرما اور گرما ہے.

3. چاہت کے ہر فیصلوں کی بجائے چاہت کے سب فیصلوں ہونا چاہیے.

0
جی والیکم اسلام نشاندہی کا بہت شکریہ ۔ میں درست کرتا ہوں انشااللہ

جی شکریہ آئندہ بھی خامی نظر آے تو اصلاح فرمادیں ⁦☺️⁩?

ضرور، کیوں نہیں.
آپ بھی مشق جاری رکھیں اور شاعری کی اشاعت سے پہلے آپ خود بھی تنقیدی نظر سے دیکھ لیا کریں، بہت سی لغزشیں گرفت میں آ جایا کریں گی، انشاء اللّہ..

عبید صاحب...
ابھی آپ سے پہلے شعر میں "کہ" چھوٹ گیا ہے یعنی "ہاں گویا کہ ہم رحلتوں سے گزرے تھے"...

جی کیوں نہیں میں بھی ابھی اک طالب علم ہوں اور مکمل عروض سے واقف نہیں۔بس کاوش ہے اور سدھار لانے کی۔

0
عبید صاحب...
ابھی آپ سے پہلے شعر میں "کہ" چھوٹ گیا ہے یعنی "ہاں گویا کہ ہم رحلتوں سے تھے گزرے"...

0
جی کر لیا وہ" کہ"

0
بالکل، ہم سب طالب علم ہیں... میں نے بھی عروض ویب سائٹ سے سن 2017 میں اصلاح لینی شروع کی تھی. پھر دھیرے دھیرے عروض کے رموز کھلتے گئے، سلام ہے ذیشان اصغر صاحب کے لازوال کارنامے کو...

0
ماشا اللہ ان صاحب کو سو سلام
میں نے تو پانچ مہینے پہلے ہی یہ سایٹ دیکھی

0