لیٹے لیٹے خود کو ہی سمجھا رہے ہیں
چشمِ حیراں سے بھی آنسو جارہے ہیں
سوگ ہی سارا منالوں یا خوشی بھی
مرنے کے شاید مرے دن آ رہے ہیں
راتوں کا میری ذکر مت چھیڑوں جاناں
ہجر کے تمہیں وہ دن گنوا رہے ہیں
دل لگالو تم کسی سے خوب ہوگا
مجھ پہ کیوں اتنا ترس یوں کھا رہے ہیں
تشنگی کس قدر ہے اتنا ہے یعنی
زہر پیتے آۓ زہر اب کھا رہے ہیں
صبر کچھ تو کرلو اے بے رحم یادوں
آرہے ہیں ہم ہوش میں اب آ رہے ہیں
اب دلیلیں ٹھکرا چکا ہوں میں ساری
سب مجھے اب رو رو کے سمجھا رہے ہیں
راس آیی ہی نہیں آسان نعمت
اس لیے ہم تم کو یوں ٹھکرا رہے ہیں
دنیا نے کیا برا مجھ معصوم کو سو
ہم بھی دنیا کو بڑا بگڑا رہے ہیں
آپ کو لازم بچھڑ جانا تھا اک دن
ہم بھی خود سے آج کل اکتا رہے ہیں

0
92