| قد آور آئینے۔ |
| ہمارا نام مسلماں، ادائیں کافر ہیں |
| حرام خور یہاں سارے لوگ ساغِر ہیں |
| یہاں وزارتِ عظمیٰ نشست بکتی ہے |
| جو ظاہراً تو بہت خوشگوار دِکھتی ہے |
| یہاں پہ جسم بکے، دل بکے، ضمیر بکے |
| وکیل و منصف و انصاف کیا، وزیر بکے |
| یہ وہ نگر ہے جہاں باپ بیچے بچوں کو |
| کہ بھیک مانگتے دیکھا ہے کتنی ماؤں کو |
| جو گھر میں آئے وہ مہمان بکتے دیکھے ہیں |
| کہ چند ٹکّوں پہ ایمان بکتے دیکھے ہیں |
| یہ وہ نگر ہے جہاں پر دیانتیں مفقود |
| فقط ہے مال بنانا عوام کا مقصود |
| جو حکمران ہیں بے شرم ہیں، یہ بے حس ہیں |
| سو محتسب بھی انہیں کے شریکِ مجلس ہیں |
| ادارے جو تھے وہ برباد ہوتے جاتے ہیں |
| نہیں ہے پیروی، ہم جن کا دن مناتے ہیں |
| سہولتیں تو یہاں کچھ نہیں میسر ہیں |
| بلوں پہ بل ہیں، یہاں حال سب کے ابتر ہیں |
| نہیں ہے گیس نہ بجلی نہ آب ملتا ہے |
| کریں جو شور تو روکھا جواب ملتا ہے |
| گرانیوں کا یہ عالم کہ لوگ مرنے لگے |
| کہ گھاٹیوں میں سبھی موت کی اترنے لگے |
| ہر ایک چہرے پہ زردی مَلی ملے گی یہاں |
| کلی بہار کی لگتا نہیں کھلے گی یہاں |
| وہ دیکھ ملک میں افلاس سر اٹھائے ہوئے |
| کہ ابر ظلم کے ہر سمت دیکھ چھائے ہوئے |
| یہ لوگ بھوک سے مجبور خود کشی پر ہیں |
| کہ دنگ ایسے میں حاکم کی بے حسی پر ہیں |
| یہ ملک جیسے کہیں پر پڑا ہے لوٹ کا مال |
| کسی کو روک سکے کب کسی میں ایسی مجال |
| سو لوٹنے میں لگا ہے یہاں پہ ہر کوئی |
| یہاں سے سکھ تو لیا سب نے بھوک ہے بوئی |
| بڑے نے چھوٹے کو محکوم کر کے رکھا تھا |
| نتیجہ دیکھ لیا سب نے یہ تعاصب کا |
| ہمارے لہجوں میں تلخی کا ذمہ دار ہے کون؟ |
| امیرِ شہر نہیں ہے تو داغدار ہے کون؟ |
| گلی گلی میں جو بکھرے ہوئے یہ لاشے ہیں |
| غلیظ چہرے پہ حاکم کے ہی طمانچے ہیں |
| بھریں یہ جیب، رعایا کو صرف ٹھینگا ہے |
| نظام سارا یہ آنکھوں سے گویا بھینگا ہے |
| ہوئے جو بعد میں آزاد سب عروج پہ ہیں |
| یہاں پہ دوش ہیں، الزام ایک دوج پہ ہیں |
| کوئی بھی کام یہاں سود بن نہیں ہوتا |
| جو ہوتا قائدِ اعظم تو آبگیں ہوتا |
| عدالتوں میں جو انصاف بکتا آیا ہے |
| یہ کام قائدِ اعظم کے زیرِ سایہ ہے |
| معالجوں کی طرف دیکھتے ہیں، روتے ہیں |
| یہ رقمیں لے کے بھی نیّا فقط ڈبوتے ہیں |
| اسی طرح سے ہو استاد یا کہ سوداگر |
| سبھی کے سب ہیں یہ جلّاد سارے فتنہ گر |
| ہو مولوی کہ ہو رنگ ساز اور زلف تراش |
| کہ پانیوں پہ ابھر آئے جیسے کوئی لاش |
| اگر تو دودھ میں پانی ملایا جاتا ہے |
| دکان دار میں ایمان پایا جاتا ہے |
| وگرنہ زہر ہے بکتا بنامِ دودھ یہاں |
| کہ پی کے جسکو رہے گا کہیں نہ نام و نشاں |
| مٹھاس پھل میں بھریں لوگ کس سلیقے سے |
| کریں نہ ایسا تو یہ پھل ہیں پھیکے پھیکے سے |
| برادہ مرچ میں، پتی میں ڈالتے ہیں خون |
| بنا کے مال یہ جائیں گے جیسے دیرہ دون |
| یہ زلزلے کہ ہوں طوفان بے سبب تو نہیں |
| یہ سوچنا ہے کہ ناراض ہم سے ربّ تو نہیں |
| صحافیوں کی یہ فوجیں ہیں یا فسانہ نگار |
| یہ پتر کار یہ شاعر ادیب و شاہ سوار |
| کسی کو اپنے فرائض کا کچھ نہیں احساس |
| نہیں ہے چھوٹوں پہ شفقت، سفید ریش کا پاس |
| لگا ہے ہر کوئی اپنی دکاں بڑھانے میں |
| سپاہی فوج میں، پولیس اپنے تھانے میں |
| کرو گے کب تلک اس بات سے نظر پوشی |
| رہا نہ ملک تو ٹھہراؤ گے کسے دوشی |
| ابھی بھی وقت ہے خود اپنا احتساب کریں |
| کہ پورا ملک کی شادابیوں کا خواب کریں |
| رشیدؔ اپنا بھی کچھ احتساب ہے کہ نہیں؟ |
| ذرا گناہ سے ہی اجتناب ہے کہ نہیں؟ |
| رشید حسرتؔ |
| مورخہ ۲۳ اپریل ۲۰۲۵، دوپہر ۱۲ بج کر ۴۰ منٹ پر یہ نظم تکمیل پذیر ہوئی۔ |
معلومات