دل فسردہ ہے مگر آنکھیں نم نہیں
یہ وہ غم ہے جو قیامت سے کم نہیں
ہجر سے جلتا ہے سینہ دم گھٹتا ہے
کون کہتا ہے ہمیں کوئی غم نہیں
رات ناگن کی طرح ڈستی ہے مجھے
دن کسی مقتل کے منظر سے کم نہیں
تم چلا کے دیکھتے ہو خنجر کو کیوں
تم یہ دیکھو نبضِ بسمل میں دم نہیں
آ غمِ دوراں تجھے ہم دیکھیں ذرا
آج یا تو ، تو نہیں یا پھر ہم نہیں
عشق وہ ناسورِ دل ہے جس کا یہاں
زخم بڑھتا تو ہے لیکن مرہم نہیں
کچھ نہیں اس میں تری صورت کے سوا
دل ہے ساغر کا کوئی جامِ جم نہیں

0
214