شام کے ڈھل جاتے ہی اکثر |
یوں لگتا ہے دل کو میرے |
شہر کے اک اک سیٹھ کی دن بھر |
میں نے ہی مزدوری کی ہے |
ذہن پہ غم کا بوجھ ہے ڈھویا |
دفتر میں سر اپنا کھپایا |
پھر سے اک دن اور گنوایا |
دیکھو خود کو کتنا ستایا |
بھیڑ بھرے رستوں سے ہر دم |
خود کو گھر لے آتا ہوں میں |
کندھوں سے سامان گرا کر |
خود کو ہلکا پاتا ہوں میں |
دیکھ کے تن کی تھکن کو میرے |
بستر نے چپکے سے بلایا |
جسم تو گہری نیند میں سویا |
ذہن نے لیکن چین نہ پایا |
صبح سویرے خود کو جگا کر |
جسم مجھے دفتر ہے لایا |
آفتاب عالم ؔ شاہ نوری |
معلومات