| افسوس! |
| بالآخر جیت گیا میرا رقیب مجھ سے |
| افسوس! میں کفِ افسوس ملتا ہی رہ گیا |
| میری محبوب میں نے سوچا تھا |
| کہ تیرے لمس کی دولت پا کر |
| اپنی قسمت پہ نازاں ہوں گا |
| شب و روز جب تیری مسکراہٹ میرے آنگن میں |
| محبتوں کے گل کھلائے گی |
| ایسے میں فصل گل بھی میرے مقدر پر |
| رشکِ بہاراں ہو گی |
| افسوس! |
| میں نے یہ چاہا تھا کہ |
| تیری قربت کے چند لمحے پا کر |
| غمِ دنیا سے رستگار ہوں گا |
| افسوس |
| میری محبوب جو مجھ کو یہ خبر ہوتی |
| کہ تیری نظروں کے تقاضے کیا ہیں |
| میں خود کو تیری نظروں کے قابل کرتا |
| ہر نا ممکن حد کو حدِ زیست سمجھ کر |
| اتر جاتا طوفانوں کے سمندر میں |
| اور پھر تجھ کو تیری نظروں سے چرا لاتا |
| سکوں پاتا |
| مگر افسوس! میری محبوب تو نے |
| سمجھا ہی نہیں تھا اپنے قابل ورنہ |
| اپنی بے لوث محبت کو |
| تیرے قدموں میں نچھاور کرتا |
| میں خود کو تیری الفت سے بار آور کرتا |
| افسوس ! ہائے افسوس |
معلومات