| ہر اک کنگن کھنکتا ہے اُس کے لیے |
| ہر اک شعلہ بھڑکتا ہے اُس کے لیے |
| کہنے کو تو سلسلہ ہے ہستی کا مگر |
| رگ رگ سے خوں ٹپکتا ہے اُس کے لیے |
| تم بس آدھی ادھوری سانسوں میں رہو |
| میرا تو دل دھڑکتا ہے اُس کے لیے |
| جسم و جاں میں بھی زلزلے آتے ہیں کہ جب |
| میرا تن من لرزتا ہے اُس کے لیے |
| وہ پل پل روشنی میں بہلے سو وہاں |
| شب بھر جگنو بھٹکتا ہے اُس کے لیے |
| یوں تو کہیں اٹکا نہیں ہے دل بھی مگر |
| میرا دل بس اٹکتا ہے اُس کے لیے |
| یوں بھی ہو گا، یوں بھی ہو گا، یوں بھی یہ دل |
| ہر خواہش سے لپکتا ہے اُس کے لیے |
| کب کا یہ ڈگمگا گیا ہوتا مگر |
| کامیؔ تو بس سنبھلتا ہے اُس کے لیے |
| کامران |
معلومات