پڑی مٹی میں ہر شے خاک ہی ہوتی نظر آئی |
مگر پھر چاک پر کوزہ گری ہوتی نظر آئی |
گُل و بلبل وہیں موجود تھے لیکن اداسی تھی |
چمن میں جانے کیوں افسردگی ہوتی نظر آئی |
ہمیں اس حال میں رہنا وہاں منظور ہی کب تھا |
ترے بن آنکھ میں جب تشنگی ہوتی نظر آئی |
روانہ ہو گئے تھے قافلے کے سنگ ہم بھی تو |
نصیبوں میں خوشی کی آگہی ہوتی نظر آئی |
اٹھائی جب نظر ، دیکھا حسیں چہرہ بڑا روشن |
عیاں جس پر ہمیں تابندگی ہوتی نظر آئی |
وہ جب بھی بات کرتا ہے ہمیشہ گہری ہوتی ہے |
نہیں ہے آج تک وہ سرسری ہوتی نظر آئی |
جہالت کے اندھیروں سے نکل آئے ہیں کیا غم ہے |
جہاں بھی ہم گئے ہیں روشنی ہوتی نظر آئی |
سراپا ہو گئے اس کی محبّت میں فنا جب ہم |
حجاب اٹھے ، نہیں بے پردگی ہوتی نظر آئی |
فنا فی الذّات ہو کرآج سیکھا راز اُڑنے کا |
جھکی جب ، عرش پر یہ بندگی ہوتی نظر آئی |
ملے درسِ محبّت سب کو ہی آغوشِ مادر میں |
تو کیوں طارق دلوں میں تیرگی ہوتی نظر آئی |
معلومات